Today this article is motivational faiz ahmad faiz quotes,and faiz ahmad faiz shayari urdu sms text with poetry img and you can easily copy and past and esily share with friends and family,
(faiz ahmad faiz about in urdu)
فیض احمد فیض (1911–1984) پاکستان کے معروف شاعر، ادیب، اور دانشور تھے جنہیں 20ویں صدی کے سب سے مشہور اردو شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں گہری انسان دوستی، انقلابی جوش اور گہرا گیت ہے۔ فیض کے کام اکثر محبت، سیاست، جبر اور سماجی انصاف کے موضوعات کو تلاش کرتے ہیں۔
برطانوی ہندوستان (اب پاکستان) میں پیدا ہوئے، فیض کم عمری سے ہی بائیں بازو کی سیاست اور سرگرمی میں شامل ہو گئے۔ وہ سوشلسٹ نظریات کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے تھے اور مظلوموں اور پسماندہ لوگوں کے حقوق کے لیے ایک واضح وکیل تھے۔ ان کی شاعری ان کے سیاسی عقائد کی عکاسی کرتی ہے، جو اکثر محنت کش طبقے اور پسماندہ طبقے کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔
فیض کی ادبی پیداوار میں شاعری کے کئی مجموعے شامل ہیں، جیسے “نقش فریادی” (1943)، “دست صبا” (1952)، اور “زندان نامہ” (1956)۔ ان کی شاعری کی خصوصیات اس کی خوبصورت زبان، بھرپور علامت نگاری اور اشتعال انگیز منظر کشی ہے۔ فیض کی آیات کو موسیقی میں ترتیب دیا گیا ہے اور مختلف فنکاروں نے گایا ہے، جو پورے جنوبی ایشیا میں مقبول ہو رہا ہے۔
اپنی پوری زندگی میں، فیض کو اپنے سیاسی نظریات کے لیے سنسرشپ اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں قید اور جلاوطنی کے ادوار کا سامنا کرنا پڑا۔ ان چیلنجوں کے باوجود انہوں نے مسلسل لکھنا جاری رکھا اور اپنے اصولوں سے سرشار رہے۔
فیض کی میراث ان کی شاعری سے آگے بڑھی ہے۔ وہ ایک ممتاز صحافی، ایڈیٹر اور ادبی نقاد بھی تھے۔ انہوں نے پاکستان کے ثقافتی اور فکری منظر نامے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور اردو ادب پر دیرپا اثرات چھوڑے۔
اپنی ادبی خدمات اور فعالیت کے اعتراف میں، فیض کو اپنی زندگی کے دوران اور بعد از مرگ دونوں طرح کے متعدد ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کی شاعری دنیا بھر کے قارئین کو متاثر کرتی رہتی ہے اور انصاف، آزادی اور انسانی وقار کے اپنے لازوال موضوعات کے لیے متعلقہ رہتی ہے۔
(فیض احمد فیض شاعری)
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی
شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر
کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر
پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے
کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر
جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر در
ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر
ایک امید سے دل بہلتا رہا
اک تمنا ستاتی رہی رات بھر
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی
شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر
کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر
پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے
کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر
جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر در
ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر
ایک امید سے دل بہلتا رہا
اک تمنا ستاتی رہی رات بھر